رک سٹیشن

 رک سٹیشن، جہاں اب صرف "موئن جو دڑو" ایکسپریس رکتی ہے


پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع سکھر اور شکارپور کے سنگم پر ایک صدی سے زائد قدیم ایسا ریلوے سٹیشن قائم ہے جو منصوبے کے مطابق بڑا جنکشن سٹیشن بننا تھا مگر حالات نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ رک سٹیشن پر کوئی اہم ریل نہیں رکتی۔


پاکستان ریلوے ریکارڈ کے مطابق سوا ایک صدی قبل برطانوی راج کے دوران افغانستان تک رسائی کے لیے جو ریلوے منصوبہ بنایا گیا تھا، اس میں رک سٹیشن کا کلیدی کردار بننا تھا۔


برطانوی راج کے ریلوے حکام نے جو منصوبہ بنایا تھا، اس کے مطابق سکھر سے بلوچستان کے علاقے جھٹ پٹ اور ہرنائی سے ہوتے ہوئے ریلوے ٹریک کو چمن سرحد پار کرنے کے بعد افغانستان میں قندھار تک پہنچنا تھا۔ ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ سکھر کے دفتر میں محفوظ نقشوں کے مطابق اس وجہ سے سکھر سبی ریلوے سیکشن کو قندھار سٹیٹ ریلوے کہا اور لکھا جاتا تھا۔


رک سٹیشن کی عمارت پر ایک طرف قندھار سٹیٹ ریلوے کا انگریزی کا مخفف کے ایس آر لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف انڈس ویلی سٹیٹ ریلوے کا مخفف آئی وی ایس آر تاحال لکھا ہوا ہے۔


محققین کا کہنا ہے کہ ماضی میں دو بڑی عالمی طاقتوں روس اور برطانیہ نے وسط ایشیا تک اپنی فوجوں کی رسائی ممکن بنانے کے لیے افغانستان تک پہنچنا ضروری سمجھا اور دونوں نے کوششیں شروع کردی تھیں۔


مگر اٹھارہ سو تراسی 1883 میں جب وسط ایشیا میں روس مارو تک پہنچ گیا تو سکھر سے شروع کیے گئے ریلوے ٹریک کو سبی اور کوئٹہ کی طرف موڑ دیا گیا۔


ریلوے کے ڈویژنل دفتر سکھر کے حکام کے مطابق رک سٹیشن جس مقصد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اس کا استعمال اس طرح کبھی نہیں ہوسکا ہے۔


رک سٹیشن پر ریلوے افسران اور چھوٹے ملازموں کی ایک کالونی تاحال موجود ہے جہاں افسران کے چھ بنگلے اور دیگر ملازموں کے آٹھ کوارٹر تعمیر کیے گئے تھے، جو اب بھوت بنگلے بن چکے ہیں۔اس کے علاوہ ریلوے ہسپتال کی عمارت بھی موجود ہے۔


رک سٹیشن پر دور سے آنے والی اور کوئلہ پر چلنے والی ٹرینوں کے لیے پانی اور ایندھن بھرنے کا نظام بھی موجود ہے۔


رک سٹیش پر فرسٹ کلاس میں سفر کرنے والے مسافروں کے لیے جو انتظار گاہ بنائی گئی تھی اس کا فرنیچر تو غائب ہے مگر ایک کرسی ٹیبل تاحال مضبوط اور پھولوں سے سجے ٹائلز پر موجود ہے۔


رک سٹینش کے قریب بسنے والے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر سٹیشن پر ٹرینوں کے سٹاپ ہوں تو وہ روڈ سے زیادہ ترجیح ریل کو دیں گے۔ رک شریف گاؤں کے ایک بزرگ علی محمد کا کہنا ہے کہ "وہ اپنی جوانی سے رک سٹیشن کو ایک حسرت سے دیکھ رہے ہیں کہ کب رک سٹیشن کی رونقیں بحال ہوں گی اور کوئٹہ یا کراچی کے لیے وہ رک سٹیشن سے ریل پر سوار ہوں گے، مگر برسوں سے میری حسرت صرف حسرت ہی رہی ہے۔"


مقامی بزرگوں کو ستر کی دہائی کا وہ دن بھی یاد ہے جب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ریل کے ذریعے لاڑکانہ جاتے ہوئے رک سٹیشن کے ایک چبوترے پر کھڑے ہوکر خطاب کیا تھا۔


سندھ میں رک سٹیشن ایک صوفی گائک بھگت سنت کنور رام صاحب کے قتل کی وجہ سے مقبول ہے جہاں قیام پاکستان کے دوران ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے دوران سنت کنور رام صاحب کو بندوق مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔


رک سٹیشن پر سنت کنور رام صاحب کی یاد میں کوئی یادگار تعمیر نہیں کی گئی نہ ہی ان کا نام کہیں لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ 


Comments

Popular posts from this blog

ILIM DOLAT SE BEHTAR HAI

ABDULLAH SHAH GHAZI