Bahlol dana بھلول دانا

#عقلمند_مجذوب ...!

بہلول مجذوب ہارون رشید کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے، ہارون رشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے، کیونکہ کبھی بہت پتے کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے تھے ...

ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون رشید کے پاس پہنچے تو ہارون رشید نے ایک چھڑی اُٹھا کر اسے دی اور مزاحاً کہا کہ:
" بہلول! یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں، جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے، اسے دے دینا ... "

بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی رکھ لی اور واپس چلے گئے، بات آئی گئی ہو گئی، شاید ہارون رشید بھی بھول گئے، عرصہ بعد ہارون رشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی، بچنے کی امید نہ تھی، اطباء نے جواب دے دیا، بہلول مجذوبؒ عیادت کے لیے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا :
" امیر! کیا حال ہے ...؟ "

ہارون رشید نے کہا :
" بڑا لمبا سفر درپیش ہے ...!"

بہلول نے پوچھا :
" کہاں کا سفر ...؟ "

جواب دیا :
" آخرت کا ...! "

 بہلول نے سادگی سے پوچھا :
" واپسی کب ہو گی ...؟ "

جواب دیا :
" بہلول تم بھی عجیب آدمی ہے، بھلا آخرت کے سفر سے کوئی واپس ہوا ہے ... "

بہلول نے تعجب سے کہا :
" اچھا! آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ کون کون جائے گا ...؟ "

جواب دیا :
" آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جاتا، خالی ہاتھ جا رہا ہوں ... "

بہلول مجذوب بولا :
" اچھا! اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں، پھر تو لیجئے ... "

ہارون رشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا :
" یہ امانت واپس ہے، مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بےوقوف نہیں مل سکا، آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے ہیں تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں، حفاظتی دستے آگے چلتے تھے، حشم و خدام کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے، اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے، آپ نے تیاری نہیں کی ...! "

ہارون رشید نے یہ سُنا تو رو پڑے اور کہا :
"بہلول! ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے، مگر آج پتہ چلا کہ تمہارے برابر کوئی حکیم نہیں ..."

اللہ اکبر ...

حضرت بہلول دانا  رحمۃ اللہ علیہ

*حرام مال کسی کے پاس سے بھی آئے ٹھکرا دو*

*جناب بہلول کے پاس جب ہارون کی طرف سے کھانا آیا آپ نے اسے واپس کردیا قبول نہیں کیا*

*خلیفہ کے کارندوں نے کہا تم خلیفہ کا تحفہ نہیں پھیر سکتے اس پر انہوں نے ان کتوں کی طرف اشارہ کیا جو پاس میں ہی موجود تھے*

*فرمایا ان کے آگے ڈال دو کہ یہ کھالیں*

*خلیفہ کے کارندے بگڑے اور کہنے لگے تم نے خلیفہ کے تحفے کی توہین کی یے*

*بہلول نے کہا کہ آہستہ بولو اگر کتوں نے  سن لیا کہ خلیفہ کا کھانا یے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے*

*📚 گناہان کبیرہ جلد اول*



خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں بغداد میں ایک درویش رہتے تھے۔ان درویش کا نام بہلول دانا تھا ۔بہلول دانا بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدنیا درویش تھے ۔ان کا کوئی گھر ،کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔وہ عموما شہر میں ننگے پاؤں پھرتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے۔ بعض لوگوں نے انہیں مجذوب لکھا ہے۔ کہ یہ اللہ کی تجلیات اور عشق میں مستغرق اور  گم رہتے تھے۔اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں کی طرف التفات کرتے تھے۔ اور جب کبھی عوام الناس کی طرف منہ کرتے تو حکمت و دانائی کی بہت ہی عجیب و غریب باتیں کرتے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کے بہت بڑے ولی کامل تھے ۔ ان کا ا صل نام وہب بن عمرو تھا۔

مجذوب کی  تعریف دارلافتا ءاہلسنت میں یوں تحریر ہے۔"مجذوب اللہ کے عشق میں مستغرق لوگ ہوتے ہیں، ان لوگوں کا اللہ کے ساتھ کیا راز وابستہ ہے جس کا پتہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے، نیز یہ لوگ اللہ کے عشق میں پاگل ہوتے ہیں، چنانچہ کبھی کبھار بظاہر خلاف شرع قول یا فعل ان سے سرزد ہوجاتا ہے۔، لیکن کسی دوسرے کو اس بات کی طرف کان نہیں دھرنا چاہیے، اور نہ ہی اس کی ترویج و اشاعت کرنی چاہیے، یہ لوگ اللہ کے ایسے محبوب ہوتے ہیں کہ اللہ تعالٰیٰ ان کی ٹیڑھی سیدھی ہربات کو پسند کرتا ہے، ہمیں ان کے پوشیدہ حالات کا علم نہیں ہے، اس لیے اس سلسلہ میں کوئی لب کشائی نہ کرنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم"

مشہور واقعہ
 ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھے ساحل کی گیلی ریت کو اپنے سامنے جمع کر کے اس کی ڈھیریاں بنا رہےتھے۔ اور ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک سے ان کو یہ کام کرتے دیکھ رہی تھی وہ مٹّی کی ڈھیری بناتے اور پھر اپنے ہاتھ سے ہی اس کو مسمار کر دیتے ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے آ گئ اور بہلول سے پوچھا کیا کر رہے ہو بہلول ؟
بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا جنّت کے محل بنا رہا ہوں ،،
ملکہ نے سوال کیا اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو کیا تم کو اس کو فروخت کرو گے ،
بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں
تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے ملکہ کے سوال کرتے ہی بہلول نے بے ساختہ کہا  تین درہم ،

ملکہ زبیدہ نے اسی وقت اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ بہلول کو تین درہم ادا کئے جائیں ۔ اور ادا کردئیے گئے۔
یہ تمام واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا۔خلیفہ نے اس واقعہ کو مذاق میں ٹال دیا۔

رات کو جب ہارون الرشیدسوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے۔
چنانچہ وہ شام کو  بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا ۔ بیچو گے ۔تو بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔
تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے۔بہلول نے بے ساختہ کہا   تیری پوری سلطنت۔

 ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ تین درہم  کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، خلیفہ! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج تم محل  دیکھ کر آئے ہو۔ خلیفہ یہ سن کر گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے  مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔  اور کہا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں۔ اور مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا ۔ کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے۔جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو ۔اس محل کو بھی تمہارے لئے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔
--------------------------

    حضرت سیِّدُناسری سقطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے حضرت سیِّدُنا بہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مِٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔میں نے پوچھا:''آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟'' جواب دیا:''میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہوجاؤں تو میری غیبت نہیں کرتی۔'' میں نے عرض کی:''روٹی مہنگی ہو گئی ہے ؟'' تو فرمانے لگے:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھے کوئی پرواہ نہیں،اگرچہ ایک دانہ دینار کا ملے۔ ہم پر اس کی عبادت فرض ہے جیسا کہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمارا رزق اس کے ذمۂ  کرم پر ہے جیسا کہ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔''
------------------------
ایک مرتبہ کسی نے کہا : ’’ بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔  ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں -
-----------------------
ایک دن بہلول بازار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص  نے پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو تو بہلول نے کہا کہ بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔
اس شخص نے کہا کہ پھر کیا بنا؟
بہلول نے کہا کہ اللہ تو مان رہا ہے لیکن بندے نہیں مان رہے۔
کچھ  عرصہ بعد اسی شخص کا ایک قبرستان کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا بہلول قبرستان میں بیٹھے ہیں۔
قریب جا کر پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو۔
بہلول نے کہا بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔
اس شخص نے کہا کہ بھر کیا بنا؟
بہلول نے کہا بندے تو مان رہے ہیں مگر آج اللہ نہیں مان رہا ہے۔

ایک مرتبہ کسی نے بہلول کو قبرستان میں ایک قبر کو چھڑی مارتے دیکھا۔ اس شخص سے رہا نہ گیا۔ بہلول کے قریب گیا اور کہا: "اے بہلول یہ کیسی حرکت ہے؟"
بہلول نے کہا: "اس قبر میں جو شخص دفن ہے، جھوٹا ہے۔ جب تک زندہ تھا ہمیشہ کہا کرتا تھا میرا باغ، میرا گھر، میری دولت، میری چیزیں۔ اور اب وہ سب چیزیں چھوڑ کر یہاں آ کر سویا ہے۔ اور جن چیزوں پر یہ ملکیت کا دعویٰ کرتا تھا وہ سب پیچھے چھوڑ گیا۔ اگر اس کی تھیں تو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گیا۔
...................................
ایک بچے کا خوف ِجہنم

حضرت بہلول ؒ گزر رہے تھے، ایک بچے کو دیکھا، وہ کھڑا رو رہا تھا، دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا بیٹا ! رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے دیتا ہوں، تو بھی کھیل۔۔۔۔
اس بچے نے کہا: بہلول ! کیاہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟
ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟
بچے نے کہا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے آئے ہیں
انہوں نے کہا بچے ! ابھی تو تم بہت چھوٹے ہو، تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے، ابھی تو تمہارا اس منزل میں آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے۔۔۔۔
تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے، میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی لکڑیاں رکھتی ہے، اس لیے مجھے ڈر ہے کہیں دوزخ مجھ سے نہ جلائی جائے اور میرے اوپر بڑوں کو نہ ڈالا جائے
یہ سن کر بہلول تو بے ہوش ہو کر گر گئے۔

شیخ جنید بغدادی ایک دفعہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ بغداد کی سیر کے لیے نکلے انھوں نے *بہلول* کے بارے میں پوچھا، تو کسی نے کہا سرکار وہ تو ایک دیوانہ شخص ہے،
شیخ صاحب نے کہا مجھے اسی دیوانے سے کام ہے آیا کسی نے آج اس کو دیکھا ہے؟

ایک نے کہا میں نے فلاں مقام پر اس کو دیکھا ہے سب اس مقام کی طرف چل دیئے حضرت بہلول وہاں ریت پر بیٹھے ہوئے تھے،
شیخ صاحب نے بہلول کو سلام کیا، بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟

شیخ صاحب نے بتایا، بندے کو جنید بغدادی کہتے ہیں، بہلول نے کہا وہی جو لوگوں کو درس دیتے ہیں؟ کہا جی الحمدللہ۔
👈 بہلول نے پوچھا.......
*شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟*
کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔
👈 *بہلول نے کہا*، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اور وہاں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔
👈 شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔
👈 *بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟* کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔
👈 *بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔*
جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ 👈 *بہلول نے کہا*........
کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اور تھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔
👈 شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا
*کون ہو؟* شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ 👈 *بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟*
کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔
بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔
👈 بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے،
*اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائے گا نور و ہدایت نہیں،* شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔

👈 بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ *جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔*

👈 سونے میں اصل یہ ہے کہ *دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے، کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے* ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا .....  شڪريا   نورسحر💥

Comments

Popular posts from this blog

ILIM DOLAT SE BEHTAR HAI

ABDULLAH SHAH GHAZI