حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
حضرت شاہ بو علی قلند رؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا زمانہ ایک تھا۔
حضرت شاہ بو علی قلندرؒ کے ہاں ہر جمعرات کو محفل ہوا کرتی تھی۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے اپنے ایک مرید سے فرمایا کہ حضرت شاہ بو علی قلندرؒ کے ہاں ہر جمعرات کو جو محفل ہوتی ہے وہاں جا کر بیٹھا کرو، وہ مرید تھے حضرت خواجہ امیر خسروؒ۔ ایک وقت گزر گیا۔۔۔ ایک روز حضرت بو علی شاہ قلندرؒ نے فرمایا: خسروؒ ھم نے تمہارے شیخؒ کو حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی کچہری مبارک میں کبھی نہیں دیکھا۔ یہ بات سن کر حضرت امیر خسروؒ کا دل ٹوٹ گیا۔ انہوں نے محفل میں آنا تو نہیں چھوڑا لیکن اسکے بعد بجھے بجھے سے خاموش رہنے لگے۔ جب حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے ہاں جاتے تو تب بھی خاموش اور پریشان حال سے لگتے۔ اپنے اندر کی کیفیت، پریشانی، اضطراب کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ کئی دن گزر گئے حضرت نظام الدین اولیاءؒ جو انکے شیخ تھے انہوں نے بھانپ لیا اور پوچھا، خسروؒ کیا بات ہے کیوں پریشان یو؟ کئی دنوں سے پریشان دیکھتا ہوں تمہیں! جب آپ نے اصرار کیا تو حضرت خواجہ امیر خسروؒ نے بیان کر دیا کہ، آپ کے حکم سے میں جہاں بیٹھتا تھا اور ابھی بھی جاتا ہوں۔ حضرت بو علی شاہ قلندرؒ نے فرمایا تھا: خسروؒ ھم نے تمہارے شیخؒ کو حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی کچہری مبارک میں کبھی نہیں دیکھا! حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے فرمایا خسروؒ اس میں پریشانی کی کیا بات ھے، تم ذکر کر دیتے۔ آپؒ نے فرمایا کہ تم حضرت بو علی شاہ قلندرؒ سے کہنا کہ آپ مجھے حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی کچہری مبارک میں پہنچا دیں میں خود اپنے شیخؒ کو ڈھونڈ لوں گا۔ انکو حوصلہ ہو گیا۔ ایک دن پھر حضرت بو علی شاہ قلندرؒ نے یہ بات خود چھیڑی کہ خسروؒ تم نے بات نہیں کی تھے اپنے شیخؒ سے جو بات ھم نے کہی تھی؟
حضرت خواجہ امیر خسروؒ نے فرمایا کی تھی بات انہوں نے فرمایا کہ، تم حضرت بو علی شاہ قلندرؒ سے کہنا کہ آپؒ مجھے حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی کچہری مبارک میں پہنچا دیں میں خود اپنے شیخ کو ڈھونڈ لوں گا۔ حضرت بو علی شاہ قلندرؒ نے فرمایا ٹھیک ہے آنکھیں بند کرو۔ انکے سینے پر ہاتھ رکھا اور حضرت خواجہ امیر خسروؒ کو حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی کچہری مبارک میں پہنچا دیا۔ دیکھا کچہری لگی ہے اولیاء بیٹھے ہیں یہ دروازے پر کھڑے ہیں اور ایک ایک ولی کے چہرے کو تک رہے ہیں کہ میرے شیخ کہاں ہیں؟ کچھ دیر آقا صلی الله علیه وآله وسلم بھی دیکھتے ریے خاموش رہے، کچھ دیر گزری ان کو اپنے شیخ نظر نہیں آئے آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا، خسرو کسے دیکھتے ہو کیا تلاش کرتے ہو؟
فرمایا
آقا صلی الله علیه وآله وسلم اپنے شیخؒ کو تلاش کررہا ہوں۔
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
اس سے اوپر کی کچہری میں جاؤ۔
اوپر پہنچے تو پھر آقا صلی الله علیه وآله وسلم تشریف فرما ہیں اور اس سے اونچے درجے کے اولیاء موجود ہیں۔
پھر دروازے پہ کھڑے ہو کے دیکھ رہے ہیں،
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا،
خسرو کسے دیکھتے ہو کیا تلاش کرتے ہو؟
یا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اپنے شیخ کو تلاش کررہا ہوں پر نہیں نظر آئے
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
اس سے اوپر کی کچہری میں جاؤ۔
اوپر تیسری کچہری میں پہنچے تو پھر آقا صلی الله علیه وآله وسلم تشریف فرما ہیں اور اس سے اونچے درجے کے اولیاء موجود ہیں۔
پھر دیکھتے ہیں حضرت نظام الدین اولیاء نظر نہیں آئے۔
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا،
خسرو کسے دیکھتے ہو؟
یا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اپنے شیخ کو تلاش کررہا ہوں پر نہیں نظر آئے
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
اس سے اوپر کی کچہری میں جاؤ؟
اوپر پہنچے تو پھر آقا صلی الله علیه وآله وسلم تشریف فرما ہیں اور اس سے اونچے درجے کے اولیاء موجود ہیں
اسطرح چوتھی میں گئے
پانچویں میں گئے
چھٹی میں گئے
وہاں بھی نہیں ملے تو پریشان ہو گئے، دل ڈوبنے لگا
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
آخرے کچہری میں جاؤ ساتویں کچہری میں جاؤ۔
اور ساتویں میں پہنچ گئے، دیکھتے رہے دیکھتے رہے وہاں بھی نظر نہیں آئے۔ بہت پریشان ہو گئے کہ یہ تو آخری کچہری تھی،
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے پوچھا،
خسرو کسے دیکھتے ہو؟
یا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اپنے شیخ کوڈھونڈ رہا ہوں اور آخری کچہری میں پہنچ گیا پر نہیں نظر آئے۔
ایک بزرگ پردہ ڈال کرنیچے کر کے آقا صلی الله علیه وآله وسلم کے قریب سب سے آگے بیٹھے تھے۔
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
کبھی پردہ ہٹا کر پیچھے بھی دیکھ لیا کرو!
جب انہوں نے پردہ ہٹایا مڑ کر دیکھا تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رح تھے۔
اور ایک بزرگ پردہ ڈال کراوپر آقا صلی الله علیه وآله وسلم کے پہلو میں سب سے آگے بیٹھے تھے
آقا صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا،
آپ بھی پردہ ہٹا دیں
پردہ ہٹایا
تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رح تھے۔
جب حضرت خواجہ امیر خسرو رح نے اپنے شیخ کو دیکھا تو لپکے اپنی شیخ کے قدموں میں گرنے کے لیے، بس لپکے ہی تھے تو حضرت شاہ بو علی قلندر رح نے سینے سے ہاتھ اٹھا لیا۔ آنکھ کھل گئی تو وہیں حضرت شاہ بو علی قلندر رح کی محفل میں بیٹھے تھے وجد میں آ گئے۔ پھر چل پڑے واپس اپنے شیخ کو ملنے۔ وجد کی کیفیت میں فارسی کا کلام لکھا:
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
پر ی پیکر نگاری ، سرو قد ، لالہ رخساری
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
رقیباں گوش بر آواز ، او در ناز من ترساں
سخن گفتن، چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد ﷺ اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ....
Comments
Post a Comment