shah shams tabrez

 #موضوع

#شمسؒ #تبریزیؒ ،#مولانا #رومؒ اور #محبت کا سفر

#ازقلم

#ملکخلیل

#قسط #نمبر #ایک

حضرت شمس بن محمد بن علی بن ملک داد تبریزی قلندر ؒ

آپ کی ولادت 1185عیسوی میں ہوئی-اور وصال 1248عیسوی میں ہوئی-آپ نے63 سال کی عمر پائی-آپ تبریز میں پیدا ہوئے جو ایران کا چوتھا بڑا شہر ہے-مقالات شمس تبریزیؒ میں لکھا ہے کہ آپ پیدائشی ولی ہیں-پیدائشی ولی کون ہوتا ہے؟وہ جو بچپن ہی سے تنہا رہے غور و فکر کرے-

جیسا کہ اس دور میں ہوتا تھا-بچے کو مدرسہ میں داخل کرا دیا جاتا تھا-ادھر شمسؒ کو مولانا صاحب نے ناظرہ پڑھایا-ادھر ان کو حفظ ہوگیا-جیسے جیسے ناظرہ ختم ہوتا گیا-آپ نے حفظ کرلیا-مولانا صاحب نے والد سے کہا کہ ان کو مدرسے میں آگے پڑھنے کیلئے ڈال دیں-اور آپؒ نے کتابیں پڑھنی شروع کردیں-اور پھر فقہ،حدیث،تفسیر،ادب،علم نجوم،فلسفہ-اور یہ سلسلہ چلتا گیا -بہترین عالم تھے-بے حد علم تھا ان کے پاس-جب کتابیں ختم کردیں تو والد صاحب سے فرمایا

"ابا مجھ سے نہیں ہوتا دنیاوی کام مجھے خود اپنے حال پر چھوڑ دیں"

اس کے بعد شمس ؒ درویشوں کی صحبت میں بیٹھنے لگے لیکن کچھ ہی وقت بعد دل بھر گیا فرمایا"یہ وہ نہیں جو دکھتے ہیں"

اس کے بعد عالموں کی صحبت میں بیٹھنے لگے-لیکن اتنے عالم ہونے کے باوجود آپ خاموش رہتے تھے-مجال ہے کسی کو پتہ چلے یہ کتنا بڑا عالم ہے-لیکن وہ بس سنتے تھے اور دیکھتے تھے-

شمسؒ کی علمی عظمت کا میں کیا بتاؤں-اس کیلئے ہم دیوان شمسؒ نہیں پڑھیں گے-یہ ہی کافی ہے کہ "ان کا دیوانہ وہ ہے کہ جن کے دیوانے روم والے تھے"مولانا رومیؒ ان کے دیوانے تھے-بس اس سے اندازہ لگالیں-

ایک جگہ خود مولانا رومیؒ نے یہ مسئلہ حل کردیا-فرمایا"شمسؒ کے پاس کتنا علم ہے؟تم اندازہ نہیں لگا سکتے-جو بندہ ان کے دروس میں شامل ہوجائے-پھر وہ تصوف میں اور علم میں جتنے اعلی مقام پر فائز ہوگا وہ خود کو کمتر سمجھنے لگے گا"اللہ اکبر

شمسؒ کی زندگی پوری کی پوری لکھنا ناممکن ہے لیکن کچھ احوال لکھ لیتے ہیں تاکہ آپ کو تھوڑا اندازہ ہوجائے- وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اگرچہ بے حد غریب تھے-ان کا ایک معمول تھا کہ تین مہینوں میں بچوں کو قرآن ختم کردیتے تھے اور ٹوپیاں سیتے تھے جس سے ان کی گزر بسر ہوتی-بارہا مرشدوں کے قرب میں رہے لیکن وہ ایک جگہ رک کر رہنے والے نہ تھے بلکہ دمشق بصرہ قونیہ میں گھومتے رہتے تھے -ایک جگہ فرماتے ہیں"میں ایک دفعہ ایک مسجد میں گیا-دیکھا کچھ صوفی بیٹھے باتیں کر رہے تھے-وہ راز وہ نیاز کی باتیں تھیں-میں نے پوچھا کیا بول رہے ہو تم لوگ؟تو صوفیوں کا جواب یہ تھا کہ "کیا تم نہیں جانتے ہم کیا بول رہے ہیں؟کیا تم پر خدا کے راز منکشف نہیں ہوتے؟شمسؒ فرمانے لگے"ہاں مجھ پر ہوتے ہیں لیکن میرے پاس الفاظ نہیں"-

ذرا اس بات پر غور کریں کہ صوفیوں نے عام سے لہجے میں کہا کہ کیا تمھیں یہ باتیں بھی سمجھ نہیں آتی-مطلب وہ ماحول وہ زمانہ کس قدر علم والا تھا کہ ایسی گہری باتیں عام سمجھی جاتی تھیں-

خیر شمسؒ فرماتے ہیں کہ میں بہت غمزدہ تھا کہ میں کب اپنے اندر کے خیالات کو باہر لا پاؤں گا-کہ ایک دن میں نے خواب دیکھا-خدا نے مجھ سے فرمایا"مستقبل میں ایک بندہ ہوگا جو تمھارے خیالات کو الفاظ دے گا"

شمسؒ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر 60 سال ہوئی تو میں نے خدا سے فریاد کی کہ "اب تو ملادے اس سے یارب-"تو غیب سے آواز آئی"جا اور قونیہ میں تمھیں وہ شخص مل جائے گا"اور مجھے اس شخص کی شکل دکھا دی گئی-اور شمسؒ اسی وقت قونیہ کیلئے نکل گئے-

یہ بات یاد رکھیں کہ شمسؒ ایک نہایت نڈر انسان تھے-جوانی میں مزدوری کرتے تھے-خود اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے مجھ پر پیچھے سے حملہ کرنا چاہا-جیسے ہی میں نے پیچھے اسے دیکھا-وہ تھر تھر کانپنے لگا-پھر مجھ سے کہنے لگا -سامنے والے جنگل میں نہ جانا-وہاں بہت خطرناک چیزیں ہیں-میں نے جواب دیا"تمھیں نہیں معلوم میں کیا ہوں اور میں نے کتنی خطرناک چیزیں دیکھی ہیں"-

شمسؒ رقص کرتے تھے-یعنی ایک ہاتھ اوپر اور ایک نیچے کی جانب کیئے خدا کے تصور میں مگن رہتے تھے-دنیا وہ مافیہا سے بے خبر-ان کے پاس ایک لمبا عصا تھا-اور جب بھی کسی جگہ جاتے-سرائے میں رہتے-دروازے کو بڑا تالہ لگاتے تھے تاکہ لوگ سمجھیں کوئی تاجر ہے-کیونکہ نہایت خود دار تھے-اب شمسؒ قونیہ کو نکل چکے ہیں کیونکہ انھیں خواب میں مولانا رومیؒ سے ملنے کا اشارہ دے دیا گیا ہے-آپؒ کی عمر اس وقت 60 سال ہے جبکہ مولاناؒ اس وقت موجودہ دنیا کے سب سے بڑے عالم تھے-اور بیک وقت 10ہزار شاگرد ان کے آگے پیچھے چلتے تھے-اور مولانا کی عمر اس وقت 37 برس ہے-ان کی شادی ہوچکی ہے-دو بیٹے ہیں-اور قونیہ میں نہایت معزز سمجھے جاتے ہیں-شمسؒ گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور تبریز کو خدا حافظ کہ دیتے ہیں-

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے-

Comments

Popular posts from this blog

ILIM DOLAT SE BEHTAR HAI

ABDULLAH SHAH GHAZI