عشق آمد عقل خود آوارہ شد

 علم عقل اور عشق :

عاشق کی انتہا مرتبہ معشوق (محبوب) ہے۔ 

عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے. اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ میں فرماتے ہیں:

مرتبہ فقر اصل میں مرتبہ معشوق ہے. عِشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے معشوق کو جس چیز کی خواہش ہو عاشق اسے مہیا کر دیتا ہے بلکہ معشوق کے دِل میں جو بھی خیال گزرتا ہے اس کی خبر عاشق کو ہو جاتی ہے اور وہ معشوق کی خواہش کو ایک ہی نگاہ میں پورا کر دیتا ہے.


 علامہ اقبالؒ اس مقام کے متعلق فرماتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے


چوں تمام افتد سراپا ناز می گرد دنیاز

قیس را لیلیٰ ہمی نامند درصحرای من

ترجمہ: 

جب عشق کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ سراپا ناز (محبوب) کی صورت اختیار کر لیتا ہے چنانچہ میرے صحرائے عشق میں قیس کو لیلیٰ کہا جاتا ہے یعنی عاشق کا عشق جب کمال کو پہنچ جاتا ہے تو عاشق گویا خود معشوق بن جاتا ہے.

مولانا رومؒ  کا قول ہے کہ'' ہم عشقِ الٰہی کو علم و عقل سے بیان نہیں کر سکتے''۔


عشق آمد عقل خود آوارہ شد

شمس آمد شمع خود بیچارہ شد

ترجمہ:


عشق آگیا تو بے چاری عقل بے کار ہوگئی جیسے سورج نکلا تو شمع کی ضرورت نہ رہی ۔


رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست

رہ عاشقاں جز خدا ہیچ نیست

ترجمہ:


عقل کا راستہ بہت پیچیدہ اور مشکل ہے اور عاشقوں کا راستہ خدا کے سوا کچھ نھیں

Comments

Popular posts from this blog

ILIM DOLAT SE BEHTAR HAI

ABDULLAH SHAH GHAZI